ہائے سکینہ کی غریبی
ہائے سکینہ کی غریبی
باپ کو خواب میں دیکھا تو پکاری دختر
آپ جس دن سے گۓ اے میرے مظلوم پدر
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
آپ مقتل کو سدھارے تو ہوئی خاک بسر
خاک سب خیمے ہوئے جل کے پھوپھی بےچادر
تم نے پہنائے تھے جو لے گیا ظالم وہ گوہر
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
بھولنا چاہا بھی لیکن نہ بھلا پائی وہ بات
نقش اس دل پہ ہوئے ہیں وہ سکون کے لمحات
آپ کے سینے پہ میں سوئی تھی آشور کی رات
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
میرے رخسار پہ دیکھو تو تمانچوں کے نشاں
آنکھ سے اشک تو کانوں سے لہو بھی ہے رواں
آپ کے سر کی قسم قیدی ہوئی جب سے یہاں
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
بابا ہم گیارہ محرم کو سفر پر نکلے
شام کی سمت سبھی قیدی چلے روتے ہوئے
کیسے بتلاؤں تمہیں راہ میں جو زخم ملے
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
چلتے ناکے سے میں اک بار گری محو فغاں
قافلہ روکا گیا قیدی ہوۓ نوحہ کناں
دادی زہرا سے ملی سوئی تھی کچھ دیر وہاں
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
بابا اک یہ بھی قیامت کا ستم تھا ہم پر
شام کے لوگوں نے برسائے تھے ہم پر پتھر
پتھروں سے جو لگے زخم دل نازک پر
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
بیس گھنٹوں کا سفر وہ بھی اسیری کے لیے
پھر بلایا مجھے ظالم نے کنیزی کے لیے
یہ ستم کم تو نہیں آپ کی بیٹی کے لیے
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
آپ کی یاد تمانچوں کے ستم تنہائی
دیکھو تقدیر سکینہ کو کہاں لے آئی
بابا جس روز سے میں قید ستم میں آئی
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
بین عرفان سکینہ کے لکھے کیا مظہر
باپ کو خواب میں دیکھا تو پکاری دختر
آپ جس دن سے گۓ اے میرے مظلوم پدر
پھر اس کے بعد کہاں سوئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
عمر بھر روئی سکینہ
Lyrics Submitted by Burhan Haider